Slider
ہو حلقہ یاراں تو ہے ریشم کی طرح نرم

صائمہ صدف بنت محمد شکیل احمد.ممبر جی آئی او ممبرا. اللہ رب العزت نے انسان کی تخلیق کی تو ساتھ ہی اسے کئی ایسے انعامات و اکرامات سے نوازا جو اسے دیگر تمام مخلوقات سے افضل بنا دیتی ہے. اللہ نے ہمیں علم, فہم, عقل و شعور اور مقصد حیات بخشا. اور ہمارے قلب کو رحم , دردمندی, محبت جیسے جذبات سے منور کر کے اسے اشرف المخلوقات کا درجہ عطا فرمایا. بقول شاعر ‘درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو’ اسی بات کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اگر انسان اپنے ان جواہر کو کھو بیٹھے تو یقینا اس کی انسانیت بھی کھو جائے گی. اور سچ کہیں تو بھلے ہی دنیا میں انسانوں کی آبادی بہت بڑی ہے لیکن انسانیت تیزی سے تنزلی کا شکار ہے.
یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے کہ آج معا شرہ کھوکھلا ہو چکا ہے. ہم اپنے اطراف ایسے کئی لوگوں سے واقف ہوں گے جو بظاہر تو خوش باش زندگی جی رہے ہیں لیکن وہ بہت سے جوبصورت احساسات سے محروم ہیں اور بے سکونی کا شکار ہیں.
ایسا ہی ایک خوبصورت جذبہ جو آدمی کو انسان بناتا ہے وہ ہے’نرم مزاجی’ یا ‘رحم دلی’ جسے ہم انگریزی میں Kindness کہتے ہیں. اکثر نرم دلی کے متبادل کے طور پر انسانیت لفظ استعمال کیا جاتا ہے. کیونکہ انسان کی ذات کا ایک بڑا حصہ اسی نرم مزاجی اور رحم دلی کے جزبہ سے تعمیر ہوا ہے. اور انسانیت کی بقا’ انسانوں کی نرم دلی سے ہی ممکن ہے.
دین اسلام جو ہمارے لیے مکمل ضابطہ حیات ہے ہمیں بارہا اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ ہم نرمی اختیار کریں. نرم بات کرنا, کسی کا دل نہ دکھانا بلکہ دوسروں کے درد کو محسوس کرپانا , لوگوں کہ خطاؤں کو درگزر کردینا اور اپنے دل میں رحم اور محبت رکھنا ہی عین انسانیت ہے. اللہ تعالی قران میں سورۃ البقرة آیت نمبر 263 میں فرماتے ہیں : ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی(درگزر کرنا) اُس خیرات سے بہتر ہے، جس کے پیچھے دکھ ہو اللہ بے نیاز ہے اور بردباری اُس کی صفت ہے.
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کئی دفعہ نرمی کی تاکید کی ہے. حضرت عائشہ رض کہتی ہیں میں ایک سرکش اونٹ پر سوار ہوئی اور اسے مارنے لگی تو رسول اللہﷺ نے مجھے فرمایا
"اے عائشہ! نرم رہو، کیونکہ جس چیز میں بھی نرمی ہوتی ہے، وہ اُس کو خوبصورت کردیتی ہے اور جس چیز سے نرمی نکل جاتی ہے، وہ اُس کو بدصورت بنا دیتی ہے۔” اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ انسان کا ظاہر نہیں بلکہ اسکا باطن, اسکا نرم مزاج ہی اسے دوسروں سے ممتاز کرتا ہے اور خوبصورت بناتا ہے.
نرم مزاج اور رحم دل شخص کا قلب منافقت’ نفرت’
برتری ، نرگسیت اور خودغرضی جیسے امراض سے پاک ہوتا ہے. اسی لیے رسول اللہﷺنے فرمایا
مَنْ يُحْرَمُ الرِّفْقَ، يُحْرَمُ الْخَيْرَ كُلَّهُ
جو شخص نرمی سے محروم ہے، وہ ہر طرح کی خیر اور بھلائی سے محروم ہے۔
نرم مزاجی اور عاجزی اختیارکرنا بھی قرب الہی کا ایک ذریعہ ہے. کیونکہ یہ وہ احساس ہے جو نہ صرف حقوق العباد کی ادائیگی کو آسان بنا دیتا ہے بلکہ انسان کے دل سے تکبر اور برتریت کا خاتما کر کے اس کے دل میں رب کی شکر گزاری’ محبت اور تقوی اور للہیت پیدا کرتا ہے. رسول اللہﷺنے فرمایا "اے عائشہ! اللہ تعالیٰ رفیق یعنی نرم رہنے والا ہے اور وہ نرمی کرنے سے محبت کرتا ہے اور نرمی کی بنا پر وہ کچھ عطا فرماتا ہے جو سخت مزاجی کی بنا پر عطا نہیں فرماتا ، وہ اس کے علاوہ کسی بھی اور بات پر اتنا عطا نہیں فرماتا جتنا وہ نرمی پر عطا کرتا ہے۔”
اسلام میں رشتہ داروں, یتیموں ,مسکینوں, غلاموں, پڑوسیوں حتی کہ جانوروں کے بھی حقوق بتائے گئے ہیں اور ان سب کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کی تاکید کی گئی ہے. حدیث میں فرمایا گیا ہے : جس کو نرمی عطا کی گئی، اُس کو دنیا و آخرت کی خیر و بھلائی سے نواز دیا گیا اور رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرنا، لوگوں سے اخلاق سے پیش آنا اور پڑوسی سے اچھا سلوک کرنے جیسے اعمال سے گھر آباد رہتے ہیں اور لوگوں کی عمروں میں اضافہ ہوتا ہے.
غیروں سے ساتھ نرم لہجہ میں مسکرا کر مل لینا اور ان کے لیے نرم مزاجی اختیار کر لینا نسبتا آسان ہے. لیکن اکثر ہم یہ نرم رویہ اپنے قریب رہنے والوں کے ساتھ نہیں رکھ پاتے. اس لیے اسلام میں اس کی خاص تاکید کی ہے. حدیث میں فرمایا گیا ہے : جب اللہ تعالیٰ کسی گھر والوں سے خیر و بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو ان گھر والوں کو نرمی کرنے کی توفیق دے دیتا ہے۔
"ہو حلقہ یاراں تو ہے ریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن !!”
جہاں نرمی اختیار کرنے کے کئی فائدے ہیں ویہں سخت دل انسانوں کے لیے بڑا خسارہ ہے. جو اپنے دل میں رحم اور محبت جیسے جذبوں کو نہیں پاتا اور اپنا دل دوسروں کے لیے سخت کر لیتا ہے لوگ بھی اس سے دور ہو جاتے ہیں . نہ صرف یہ کہ اسے اچھا رفیق و ہمدم ملنا مشکل ہو جاتا ہے بلکہ بہت سی نیکیوں سے بھی وہ محروم رہ جاتا ہے.
رسول اللہﷺنے فرمایا.
اے عائشہ بیشک قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک مرتبے کے اعتبار سے سب سے گٹھیا شخص وہ ہو گا جس سے لوگ اس کی بُری زبان سے بچنے کے لیے دور رہیں یا پھر لوگ اس کو چھوڑ دیں۔
رسول اللہﷺ نے دعا فرمائی
اَللّٰھُمَّ مَنْ رَفَقَ بِاُمَّتِی فَارْفُقْ بِہٖ،وَمَنْشَقَّعَلَیْھِمْ فَشُقَّ عَلَیْہِ۔
اے اللہ! جس نے میری امت کے ساتھ نرمی والا معاملہ کیا، تو بھی اس پر نرمی کر اور جس نے میری امت پر سختی کی، تو بھی اس پر سختی کر۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں کو نرمی اور رحم عطا فرمائے. اپنی محبت اور تقوی عطا فرمائے اور دلوں کے تمام امراض سے شفا عطا فرمائے. آمین.
|
|
|