جہان خواتین
روشنی کا سفر

عائشہ حبیبجامعۃ البنات الاصلاحیہملک پیٹ ، حیدرآباد میں حنّان ہوں اس دنیا میں آیا ہوا نیا مہمان ہوں_ جب میں نے اس دنیا میں آنکھ کھولی تو میں نے دیکھا کہ میں اپنی دادی کی گود میں ہوں اور وہ مجھے مسلسل پیار کئے جارہی ہیں_ میرے آس پاس میری 4 بہنیں موجود تھیں _جو بڑی دلچسپی سے ، پیار بھری نظروں سے میری جانب دیکھ رہی تھیں _وہ میری طرف ہاتھ بڑھاتیں اور دادی کے خوف سے ہاتھ پیچھے ہٹا لیا کرتیں_
میں نے دیکھا_ دادی کی نظروں میں جہاں میرے لئے پیار کا سمندر تھا وہیں میری بہنوں کیلئے نفرت کے شعلے بھی موجود تھے _ مجھے کچھ عجیب سا محسوس ہوا _ میں دادی کی گود میں کسمسایا اور رونے کی ایکٹنگ کرنے لگا _ کیونکہ میرے پاس ان دو ذریعوں کے سواء کچھ نہ تھا کہ میں اپنی بات دوسروں تک پہنچاؤں _۔۔۔۔۔۔۔میرے رونے سے پریشان ہو کر دادی نے مجھے امّی کے حوالے کر دیا_ اور کچھ دیر بعد میں نے اپنی ایکٹنگ بند کردی _ اور دادی کو دیکھ کرشرارتی انداز میں مسکرایا _
مجھے دادی کی خود کلامی سے یہ پتا چلا تھا کہ میری 4 نہیں 5بہنیں ہیں_ مجھے دنیا میں آئے 10 دن گزر گئے تھے _ تب مجھے میری بہنوں کے نام پتا چلے _ 4 بہنوں سے میرا تعارف ہوا _ ندی ، حیاء ٬ صفاء اور ھبہ ان کے علاوہ میری ایک اور بہن جو کہ سب سے بڑی ہیں جنکا نام شفاء ہے اور سب جسے بجّو کہتے ہیں _ ان کو میں نے نہیں دیکھا وہ میرے قریب کبھی نہیں آئیں _ انہوں نے کبھی مجھے گود میں نہیں اٹھایا _ جبکہ مجھے ان سے ملنے کا بہت شوق تھا _ میں ان کی گود میں جانا چاہتا تھا_
ایک دن دادی میری پھوپی کو بتارہی تھیں کہ شفاء یعنی میری بجّو روز بہ روز بیمار ہوتی جارہی ہیں جس سے میرے ابّو کا خرچ زیادہ ہوگیا ہے _ تب مجھے پتا لگا کہ میری بہن بیمار ہے میں نے اپنے آپ کو تسلی دی کہ شاید وہ بیماری کی وجہ سے میرے قریب نہیں آتی ہیں _ دن گزرتے گئے _
میری آمد کو ایک مہینہ گزر چکا تھا اچانک ایک دن گھر میں ہنگامہ اور افراتفری شروع ہوئ _ میری بہنیں بجّو کے کمرہ کی جانب دوڑنے لگیں _ امّی مجھے ہال میں لٹا کر دوڑیں _ پھر عجیب چیخ و پکار شروع ہوئ _ میں نے سوچا بچّے تو بچّے بڑے لوگ بھی شور کرتے ہیں؟ لیکن میں پریشان ہوا _ کیا ہوگیا ہے؟ سب کیوں پریشان ہیں_؟ اپنی جگہ میں بے چین ٬ ہاتھ پیر مارتا رہا _ کیا کروں۔۔۔۔؟ کیسے پتا لگاؤں کیا ہوا ہے۔۔۔۔؟ کوئ مجھے کیوں نہیں بتاتا ہے _ میں چھوٹا ہوں تو مجھے کوئ کچھ سمجھتا ہی نہیں ہے اپنی بے بسی پر مجھے سچ مچ رونا آگیا _ میری چیخ و پکار احتجاج میں بدل گئ _ میری آواز پر حیاء آپی آکر مجھے لے گئیں _ میرے کان پر جھنجھنا ہلانے لگیں _ جسکی آواز مجھے قطعی پسند نہیں تھی۔۔۔ یہ بڑے لوگ سمجھتے کیوں نہیں کہ جس آواز سے بڑوں کا جی گھبراتا ہے ایسی آواز بچوں کے نرم و نازک کانوں کا کیا حال کرتی ہوگی _ کس قدر گراں گزر رہی تھی آواز جس پر میں اس سے زیادہ چیخنے لگا بجّو کے کمرہ میں جب ہم پہنچے تو کمرہ میں سب جمع تھے _ میں نے دیکھا میری بجّو زمین پر پڑی ہوئ تھیں ۔۔۔میری امّی اور بہنیں رو رہی تھیں اور دادی بڑبڑارہی تھیں ۔۔۔۔ میں چیخنا بھول چکا تھا _میں پریشان ہوگیا یہ کیا ہوگیا ؟ میری آنکھوں سے خاموش آنسو بہنے لگے _ کیا ہوگیا ہے میری بہن کو ۔۔۔؟ پہلی ملاقات تھی لیکن پھر بھی میں اپنی بہن سے مل نہ سکا _ اُسی وقت میری آنکھوں پر نیند کے پردے پڑنے لگے _ پتا نہیں بچوں کی ہر پریشانی کا علاج نیند ہی کیوں ہوتی ہے ۔۔۔؟ جب سے آیا ہوں سوئے ہی جارہا ہوں _
ابّو آئے اور ان کو ہاسپٹل لے گئے _ دو دن گزر چکے تھے لیکن بجّو ابھی گھر نہیں لوٹی تھیں_ میں بے چین تھا_ کسطرح پتا لگاؤں کیا کروں _ امّی مجھے دادی کے حوالے کر کے چلی جایا کرتی تھیں_ اور میری بے چینی جھنجھلاہٹ اور ضد بن کر دادی کو پریشان کرتی تھی _ وہ کہتیں کہ یہ پریشانی کیا کم تھی جو یہ بچّہ بھی پریشان کرنے لگا _ دادی میری دلی حالت سے بے خبر بڑبڑائے جاتیں اور مجھے چپ کراتیں _ لیکن میں مسلسل اسی کوشش میں ہوتا کہ معلوم کروں کہ کیا ہوگیا ہے میری بہن کو _ اور اسی وقت نیند مجھے آدبوچتی _
دوسرے روز شام کے وقت امی گھر آئیں تو میری بہنوں سے لپٹ کر روتے ہوئے سنانے لگیں کہ ڈاکٹر نے شفاء یعنی میری بجّو کا ٹسٹ کروایا ہے اور ان کی رپورٹ میں ہے کہ اُنھیں کوئ بیماری ہوگئ ہے اور انکے پاس وقت بہت کم ہے_ میری امی اور بہنیں زاروقطار روئے جارہی تھیں_ میں نہیں جانتا تھا کہ انھیں کیا بیماری ہے اور کس چیز کا وقت ختم ہورہا ہے _ لیکن میں اتنا سمجھ چکا تھا کہ کچھ تو ایسا ہوا ہے کہ جو نہیں ہونا چاہئیے تھا _ امی اور بہنوں کے رونے نے مجھے بھی رُلا دیا _ میں بھی ان کے غم میں برابر شریک رہا _ روتے روتے کب آنکھ لگی اور کب میں نیند کی آغوش میں گیا اسکی خبر نہ ہوئ _
اگلے روز مجھے بخار تھا پھر بھی امی مجھے اس طرح تیار کررہی تھیں جیسے کہیں جانا ہو _ میں تشویش میں تھا کہ کیوں مجھے تیار کررہی ہیں _ اتنے میں دادی آئیں _ امی سے سوال کیا کہ بچّے کو کہاں لے جارہی ہو؟ ( دادی کو شاید کوئ شک تھا) _
میں امی اور دادی کو ٹکر ٹکر دیکھ رہا تھا _ مجھے لگا کہ روز کی طرح آج پھر کوئ جنگِ عظیم ہونے والی ہے_ امی نے کہا کہ شفاء حنّان سے ملنا چاہتی ہے _ دیکھنا چاہتی ہے اسکی خواہش ہے کہ وہ بچّہ سے بات کرے اُسے گود میں اٹھائے ٬ اسے پیار کرے_ اس لئے لے جارہی ہوں _
میری خوشی کا ٹھکانا نہ رہا _ میں ہاتھ پیر مارنے لگا _ آوازیں نکالنے لگا _ دادی کا شک صحیح ثابت ہوا تھا _اسی لئے دادی کا غصّہ اُس وقت عروج پر ہوا _ وہ امی کو بے تکان سنانے لگیں _ کیا میرے پوتے سے تم سب کو دشمنی ہے؟ کیوں اس بیمار کے پاس لے جارہی ہو _ نہ جانے کہاں سے بیماری لگالی ہے ۔۔۔۔ میری اجازت کے بغیر میرے پوتے کو لے جانے کی ضرورت نہیں ہے _ شفاء تو جلتی ہے میرے حنّان سے۔۔۔۔اس کو دشمنی ہے میرے پوتے سے _ اس کی حسد میں وہ بیمار پڑی ہے _ میں دادی کا غصّہ دیکھ رہا تھا انھوں نے کہا حسد میں بیمار ہوئ ہے _ یہ حسد کیا چیز ہے شاید یہ ایسی چیز ہے جو انسانوں کو بیمار کر دیتی ہے _ میری معلومات میں اضافہ ہی ہوتا جارہا تھا _
امی کا چہرہ لال ہوگیا وہ ہمت کرکے دادی کی مخالفت میں بول پڑیں کہ دشمنی تو آپ کو ہے میری بچّیوں سے _ آپ کی نفرت نے میری بچّی کو موت کے منہ میں پہنچا دیا ہے _ اور کیا برا ہوگا ہمارے ساتھ_؟ آج آپ کچھ بھی کہہ لیں میں میری بچّی کی خواہش پوری کروں گی ۔۔۔۔ میری دھڑکن رُکنے لگی _ ایک ہی پل میں میری خوشی غم میں بدل گئ _ موت کیا چیز ہے؟ کیا یہ کوئ ایسی جگہ ہے جہاں جاکر میری بجّو واپس نہیں آئیں گی _ نہیں نہیں ایسا نہیں ہوسکتا _ بجّو کہیں نہیں جاسکتی _ کیا کہہ دیا امی نے _؟ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا _ یہ کیا سن لیا میں نے _؟ کیا ہوا ہے بجّو کو ؟ امی کے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے تھے_
” موت کے منہ میں پہنچا دیا _” میں امی کے گود میں بے چین ہورہا تھا کہ امی مجھے بتائیے کہ موت کس چیز کا نام ہے؟ میری معلومات ادھوری ہی رہیں _ بہر حال امی مجھے لے کر ہاسپٹل پہنچیں _ بجّو اس وقت سو رہی تھیں _ ہم انکے جاگنے کا انتظار کرنے لگے _ اسی انتظار میں میں نیند کی آغوش میں چلا گیا _ پتہ نہیں کتنا وقت گزر چکا تھا مجھے میٹھی نیند سوتے ہوئے _ جب آنکھ کھلی تو میں میری امی کی شکل و صورت والی لڑکی کی گود میں تھا _ مجھے ایک سیکنڈ نہ لگا میری بجّو کو پہچاننے میں_ وہ کتنی پیاری تھیں _ میری امی اور تمام بہنوں سے زیادہ خوبصورت _ پتا نہیں کہ وہ زیادہ خوبصورت تھیں یا میری محبت انھیں خوبصورت بنارہی تھی _ میں ان کی گود میں خوش تھا مسکرا رہا تھا _ ہوں ہاں کر رہا تھا _
انھوں نے مجھے پکارا _ میری بہن نے پہلی بار مجھے پکارا_ میں ہمہ تن گوش سن رہا تھا _
” میرے بھائ ! میرے حنّو !
میں تمھاری بہن ہوں شفاء "_
میں بجّو کی گود میں ہاتھ پیر مارتا خوشی سے آوازیں نکالتا _ ان سے کہنا چاہتا تھا کہ میں آپ کو جانتا ہوں مجھے آپ سے ملنے کی بہت خواہش تھی _ بجّو مجھ سے بات کرنے میں مصروف تھیں اور میں ان کے ایک ایک لفظ کو غور سے سنتا جا رہا تھا _ اور ہوں ہاں میں جواب دیتا جارہا تھا _ میرا حال یہ تھا کہ بات بے بات آنے والی نیند بھی مجھ سے کوسوں دور ہو گئ تھی _ میں آج بجّو کے دل کی ہر بات سننا چاہتا تھا _ میں بہت خوش تھا تو آج دنیا بہت خوبصورت لگ رہی تھی _ میرا دل خوش تھا تو مجھے آج ہر چیز اچھی لگ رہی تھی _ یہاں تک کہ بچّوں کو انجیکشن دینے والے ڈاکٹر اور نرس بھی اچھے لگ رہے تھے _
بجّو کہہ رہی تھیں _
"میرے بھائ ! مجھے معاف کرنا کہ میں اتنے دن تک تم سے نہیں مل سکی _ تم سے دور رہی _ تم کو گود میں نہیں لی اور نہ ہی تم کو پیار کیا _”
بجّو کی آنکھوں میں آنسو تھے _ انہوں نے کہا _” میں تم سے نفرت نہیں کرتی _ میں تم سے حسد نہیں کرتی _ میں تو تم سے بے انتہا محبت کرتی ہوں _ سب سے زیادہ تمہیں چاہتی ہوں _”
میں نے نفرت اور محبت کا لفظ سنا تھا لیکن اس کا مطلب مجھے بجّو کے چہرے پر آنے والے اتار چڑھاؤ اور نرمی سے پتا چلا کہ نفرت وہ چیز ہے جو دکھ تکلیف کے سوا کچھ نہیں دیتی اور محبت وہ چیز ہے جو سکون اور راحت بخشتی ہے _ جو میری بجّو کے چہرے پر ہے _ میں بجّو کو بتانا چاہتا تھا کہ میں بھی انھیں دل و جان سے چاہتا ہوں _ "بجّو نے کہا میں تمھاری ایک جھلک دیکھنے کو ترستی رہی _ میں بے بس تھی _ مجھ پر پابندی لگی تھی _” بجّو کی آنکھیں برستی رہیں _ وہ اپنی آنکھیں رگڑتیں اور اپنا سر سختی سے پکڑتی رہیں شاید ان کی بیماری کا تعلق سر سے تھا _ میں حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔۔۔ پابندی ۔۔۔؟ کس نے لگائ پابندی۔۔۔؟ کیا ہوتی ہے پابندی۔۔۔ ؟ کیایہ انسان کو بے بس اور مجبور کرنے کا ایک طریقہ ہے ۔۔۔؟ بجّو روئے جارہی تھیں اور کہنے لگیں” میرے بھائ میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں _ میں آج تم سے سب کچھ کہہ دوں گی جو میرے دل میں چھپا ہوا ہے _ جو مجھ پر گزر رہی ہے _
حنّو ! میں تم سے کسطرح کہوں کہ تمہاری ماں اور بہنوں نے کیا کچھ سہا ہے _ ہم پانچ بہنوں کو خاندان کے طعن و تشنیع سہتے ہوئے 18 سال گزر گئے _ ہمارا جرم صرف اتنا ہے کہ ہم لڑکیاں ہیں _ ہماری زندگی مزاق کا موضوع بنی رہی _ لوگوں کی نظروں میں ہمارے لئے یا تو حقارت ہے یا بیزاری "میں سوچنے لگا کہ حقارت اور بیزاری ایسی کونسی چیز ہے کہ جس نے میری بہن کو توڑ کر رکھ دیا _
بجّو کہہ رہی تھیں۔” خاندان کی جس تقریب میں ہم جاتیں طنزیہ نظروں کا محور بنی رہتیں _ ہم سب ان رویوں سے پریشان تھے یہاں تک کہ ہم احساس کمتری کا شکار ہونے لگیں _ اور ہم سب ایسی مجلس میں جانے سے گریز کرنے لگے جہاں خاندان کے لوگ جمع ہوتے ہوں _ میرا حال تو یہ تھا کہ میں لوگوں کا سامنا کرنے سے ڈرتی تھی _
میں بیمار رہنے لگی _ ذہنی تناؤ بڑھتا جارہا تھا _ مزاج میں سختی آگئ تھی _ میں بات بے بات جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتی جا رہی تھی _ میں امی اور بہنوں کا دفاع کرتے کرتے تھک چکی تھی _ غیر تو غیر ہوتے ہیں جنکی باتوں کا انسان سامنا کر بھی لیتا ہے _ لیکن جو اپنے ہوتے ہیں وہ اگر نفرت کا اظہار کریں ٬ طعن و طنز کریں _ اٹھتے بیٹھتے تنقید کا نشانہ بنائیں تو انسان جیتے جی مر جاتا ہے _ "
بجّو کی آنکھوں میں جو غم اور بے بسی کے آنسو تھے وہ میرے دل پر گرنے لگے _ میری بہن کہہ رہی تھی _
"دادی اور پھوپی کا رویہ دن بہ دن ہمارے ساتھ ذلت آمیز ہوتا گیا _ میرا دل ٹوٹ گیا _ مجھے امی ٬ ابو کا غم بھی برداشت نہیں ہوتا کہ کاش میں ان کیلئے کچھ کر پاتی _ کاش میں لڑکا بن جاتی _ کاش کوئ ایسا معجزہ ہوجائے جو ہماری عزت و شرف واپس لے آئے _
میں راتوں کو سو نہیں سکتی تھی رات روتے روتے گزر جاتی_ مجھے شکوہ ہوگیا تھا اپنے رب سے۔۔۔ میں شکوہ شکایت کرتی رہتی پھر یوں ہوا کہ ایک دن یہ شکوہ شکایت میرے دل و دماغ سے نکل کر میری زبان پر آنے لگا _
میں اپنی دوست گُل سے اپنے دل کا سارا حال سنانے لگی _ خاندان کا رویّہ ٬ دادی اور پھوپی کی طنزیہ گفتگو ٬ امی، ابو کا دکھ ٬ درد اور اپنی چھوٹی بہنوں کی بے بسی _ ساری تکلیف میں نے اس کے آگے کھول کے رکھ دی _ اور پھر میرا شکوہ کہ اللہ نے ہم کو لڑکی بنا کر اتنی بڑی آزمائش میں ڈال دیا _ کیا اچھا ہوتا کہ ہم لڑکے ہوتے _ سب کی نظروں میں ہمارے لئے عزت تو ہوتی _ وقار تو ہوتا۔۔۔ غرض میری ساری محرومیاں زبان پر آگئیں _
میری کیفیت دیکھ کر٬ میری باتیں سن کر گُل سمجھ چکی تھی کہ میں نفسیاتی طور پر بہت پریشان ہوں اس نے میری دلجوئی کی _ اس نے کہا کہ میں اپنے رب سے دعا کرتی رہوں _ اس نے سمجھایا کہ شکوہ شکایت کرنا نا شکری ہے _ تب میں کسی حد تک سنبھلنے لگی _ راتوں کو دعائیں کرنے لگی _ اللہ سے توبہ و استغفار کیا _ اسکے بدلے اللہ کریم نے ہمیں تمہاری شکل میں اتنی بڑی نعمت سے نوازا ۔۔۔ تم ہماری زندگی میں کیا آئے کہ ایک بہار آگئ ۔۔۔ دادی اور پھوپی ، سارا خاندان خوشی منانے لگا ۔۔۔ امی ، ابو کی تکلیف دور ہوئی ۔۔۔ ان کی محرومی ختم ہوئی ۔۔۔ہم بہنوں کیلئے بھی تم چاند سے کم نہ تھے ۔۔۔ ہمیں اتنی خوشی ہوئی کہ بیان نہیں کر سکتی ۔۔۔اندھیرے چھٹتے محسوس ہوئے ۔۔۔ ہم خود کو معتبر سمجھنے لگے ۔۔۔
اب ہم خاندان میں سر اٹھانے کے قابل ہو چکے ہیں ۔۔۔۔
لیکن تم تو ہمارے لئے چاند ہی ثابت ہوئے _ ہم بہنیں نہ تم کو ہاتھ لگا سکتی تھیں ، نہ تمہارے قریب آ سکتی تھیں _ تم ہم سے چاند کی ہی دوری پر تھے جسے ہم دور سے دیکھ سکتے ہیں _”
بجّو کی باتیں میں غور سے سن رہا تھا_ بجّو نے مجھے چاند کہا _ میں سمجھ گیا کہ چاند ضرور کوئی ایسی چیز ہوگی کہ جسے لوگ دور سے دیکھ تو سکتے ہیں پر چھو نہیں سکتے جس طرح میری بہنیں مجھے دور سے دیکھتی ہیں چھو نہیں سکتیں _
” ہم پر پابندی لگی کہ تم سے دور رہیں _ خاص کر مجھ پر یہ پابندی لگی تھی کہ میں تم کو دیکھ بھی نہیں سکتی _ کیونکہ میں بیمار ہوں _ ہماری خوش فہمیاں ختم ہوگئیں کہ ہم تمہاری آمد پر عزت و شرف کا مقام پائیں گی _ ہماری محرومیوں اور پریشانیوں میں دن بہ دن اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے _” بجّو نے جب محرومیوں اور پریشانیوں کا ذکر کیا تو مجھے لگا کہ یہ دو ایسی وزنی گٹھریاں ہیں کہ جنکا بوجھ انسان اٹھا نہیں سکتا _ اور وہ انسان کو اپنے بوجھ تلے دبا کے رکھ دیتی ہیں _
"میرے بھائی میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں تم وہ ہو جسکا مجھے ہمیشہ سے انتظار تھا _ لیکن قدرت کا انتظام دیکھو کہ تم آئے اور میرے جانے کا وقت آگیا _ اپنی دوسری بہنوں کا خیال رکھنا _ امی ، ابو کا خیال رکھنا_” بجّو رو رہی تھیں _
میں بے چین ہوا _ بجّو نڈھال ہو چکی تھیں _ انکی حالت خراب ہونے لگی _ وہ اپنے سر کو سختی سے دبانے لگیں _ ان کی سسکیاں بلند ہو رہی تھیں _ پتا نہیں کہ کیا ہورہا تھا _ کمرہ میں ہمارے علاوہ کوئی نہ تھا _ میں کیا کروں بجّو کی حالت خراب ہورہی تھی _
بجّو کو میں پکارنے لگا _ آپ ہمت نہیں ہار سکتیں _ آپ کو اس دنیا سے لڑنا ہوگا _ میری بہن! اٹھو ، تم اپنی آواز بلند کرو میں تمہارا ساتھ دونگا _ تمہیں دنیا کو دکھانا ہوگا کہ لڑکیاں لڑکوں سے کم نہیں _ وہ بھی ایک جیتے جاگتے انسان ہیں _ میں یہ سب کہنا چاہتا تھا پر میری بے بسی یہ تھی کہ میرے الفاظ میری بہن تک نہ پہنچ سکے _ میں اسے تسلی نہ دے سکا _
وہ میری پیشانی چومتی ہوئی اچانک مجھ پر جھک گئیں _ میں بجّو کی اس کیفیت سے بے خبر کچھ دیر ان کے اٹھنے کا انتظار کرتا رہا _ پھر مجھے کچھ ان ہونی کا احساس ہوا _ میں انھیں غور سے دیکھتا رہا_ کیا ہوا بجّو _؟ اٹھتی کیوں نہیں۔۔۔ بجّو بجّو ۔۔۔میں کیا کروں میں کسمسایا ۔۔۔۔۔کیا ہوگیا۔۔۔؟ کیا میری بہن بے ہوش ہوگئی ۔۔۔۔؟
میں امی کو پکارنے لگا ۔۔۔چیخنے چلّانے لگا۔۔۔۔میں زور زور سے روتا رہا تاکہ کوئی ہماری جانب متوجہ ہو _ اور یہی ہوا امی میری آوازیں سن کر دوڑتی ہوئی آئیں _ لیکن بجّو کو دیکھ کر امی کی چیخیں نکل گئیں _ کیا ہوا ہے شفاء ۔۔۔۔۔۔ میری بچّی ۔۔۔۔۔۔ میری شفاء ۔۔۔۔۔ڈاکٹر ڈاکٹر ۔۔۔۔۔۔۔۔ میری بچّی کو دیکھیں _
مجھے حیاء آپی گود میں لے چکی تھیں _ میں زاروقطار روئے جارہا تھا _ ساری بہنیں رو رہی تھیں _ کیا ہوگیا ہے بجّو کو _؟ کیا کریں کیسے ہوش میں لائیں _ میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ میں کیسے اپنی بجّو کو ٹھیک کردوں ان کی گود میں جاؤں _ وہ مجھے پیار کریں _ مجھے کھلائیں _ لیکن یہ خواب خواب ہی ہوکر رہ گیا کیونکہ ڈاکٹر نے میری بہن کو چیک کیا اور اسے مردہ ثابت کردیا _
انّا للہ وانّا الیہ راجعون
میری دھڑکن بھی رک گئی _ میری سانسیں بھی رکنے لگیں _ میری امی بے ہوش ہوئیں _ بہنیں کبھی ماں کو کبھی بجّو کو پکڑ کر روتی رہیں _ میں دنیا و ما فیھا سے بے خبر ہو کر رہ گیا _ میں کبھی ہوش اور کبھی بے ہوشی کی کیفیت میں رہا _ بجّو کی آواز میرے کانوں میں گونج رہی تھی _ اور میں دنیا سے غافل رہا _ جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ۔۔۔۔۔ اب میں اپنے جھولے میں لیٹا ہوا ہوں اور مجھ سے کچھ دوری پر میری بجّواپنے ڈولے میں لیٹی ہوئی ہیں ۔۔۔۔میری پیاری بہن کا جنازہ سجا ہوا ہے ۔۔۔۔۔ میرے آنسو تھم چکے ہیں ۔۔۔ ایسا لگ رہا ہے کہ میں اس دنیا میں موجود نہیں ہوں بلکہ اپنی بجّو کے ساتھ جا چکا ہوں ۔۔۔۔ میری بہن کو ہمت نہیں ہارنی چاہئیے تھی ۔۔۔۔اسے اس دنیا سے لڑنا چاہئیے تھا ۔۔۔۔اپنا حق منوانا چاہئیے تھا ۔۔۔۔ظلم کرنا اگر گناہ ہے تو ظلم سہنا بھی برا ہے ۔۔۔ میں اس دنیا کو کیا کہوں کہ میں جس دنیا میں خوشی خوشی آیا تھا ۔۔۔۔ یہ تو ظالموں اور جاہلوں سے بھری ہوئی ہے ۔۔۔۔ میری بہنوں کی تذلیل کرنے والے کیا سمجھتے ہیں؟ کہ وہ اس دنیا کے مالک ہیں؟ کہ ان کے عزّت دینے سے کسی کو عزّت ملے گی اور ان کے ذلیل کرنے سے کوئی ذلّت کے گڑھوں میں گر جائے گا ۔۔۔۔
عزّت و ذلّت دینا تو میرے مالک ۔۔۔۔خالق ارض و سماء کا حق ہے ۔۔۔۔اور اس نے میری بہنوں کو 1400 سال پہلے ہی عزّت و شرف بخش دیا ہے _ اس نے یہ قانون بنادیا ہے کہ لڑکیاں ماں باپ کیلئے ، خاندان کیلئے رحمت ہیں _ لڑکیوں کی بدولت ماں باپ کو جنت ملے گی _ جو اپنی بیٹیوں سے محبت کرے گا _ انھیں عزّت دے گا وہ جنت میں پیارے رسول ﷺ کے ساتھ ہوگا _ جو اپنی لڑکیوں کو بوجھ سمجھے گا وہ اپنے رب کے فرمان کا منکر ہے _ اس کے رب نے جسے رحمت کہا اسے وہ زحمت کہتا ہے _؟
یہ نا شکری کب ختم ہوگی ؟؟؟ یہ جہالت کب ختم ہوگی _؟؟؟ ہے کسی کے پاس اسکا جواب ؟؟؟
قارئین ! اب تک آپ کے سامنے ننھے حنّان کی کہانی اسی کی زبانی پیش کی جارہی تھی _
اس میں ایسے معاشرہ کی تصویر پیش کی گئی ہے جسمیں لڑکے اور لڑکیوں میں امتیاز برتا جاتا ہے لڑکیوں کی اہمیت و حیثیت سے انکار کیا جاتا ہے نہ صرف لڑکیوں کو ، والدین اور خاندان پر بوجھ سمجھا جاتا ہے _
بلکہ انھیں منحوس قرار دیا جاتا ہے ایسے سماج میں ننھا حنّان اصلاح کا بیڑا اٹھانے کا عزم لیکر, روشنی کا سفیر اور مستقبل کی نوید بن کر آرہا ہے کہ سماج سے اس برائی اور لعنت کو دور کرنا ہے _
ننھے حنّان کے اس عزم کی تکمیل کیلئے کیا آپ ساتھ دیں گے ؟ اور اس مقصد کو پورا کرنے میں آپ اپنا کتنا حصہ ادا کریں گے ۔۔۔۔۔۔؟
یہ فیصلہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں ۔سوچئے اور طئے کیجئے _
|
|
|