سیاست
سیکولرزم کا نشہ اور ملک کا فرسودہ نظام

ذوالقرنین احمدملک اس وقت کورونا وائرس سے متاثر ہے، مسلسل لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملک کی غریب پسماندہ عوام بے روزگاری سے پریشان ہے۔ ہر کوئی وائرس سے تحفظ کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کر رہا ہے۔ ملک کے ہر موبائل یوزرز کے فون پر کالر ٹیون چلائی جارہی ہے کہ ہمیں بیماری سے لڑنا ہے بیمار سے نہیں۔ لیکن ایسے سنگین صورتحال میں بھی فرقہ پرست عناصر اپنی بیمار ذہنیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اور کورونا وائرس کے پھیلنے میں اول روز سے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹہرا رہے ہیں۔ صرف فرقہ پرستوں کا ہی نہیں بلکہ سیکولر ذہن رکھنے والی سیاسی جماعتوں اور اسکے قائدین کا بھی یہی نفرت انگیز رویہ ہے۔ پہلے تبلیغی جماعت کو کورونا وائرس پھیلانے کا ذمہ دار ٹہرا کر انکے ساتھ مجرمانہ سلوک کیا گیا بیرونی ممالک سے آئے ہوئے تبلیغی جماعت کے ساتھیوں پر جھوٹے الزامات عائد کیے گئے اور ان پر ہندوستان آنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ کورونا وائرس کی حقیقت اپنی جگہ لیکن یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ فرقہ پرست حکومت کورونا وائرس کی آڑ میں سنگھی عزائم کو پورا کرنے میں مصروف ہے۔
ملک میں لاک ڈاؤن شروع ہونے سے قبل این آر سی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف شاہین باغ کا قیام گوشۂ گوشۂ میں ہوچکا تھا جو حکومت کیلے درد سر بن چکا تھا اور ایک منظم احتجاج حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف جاری تھا لیکن کورونا وائرس حکومت کیلے نعمت ثابت ہوا، جلد بازی میں بغیر منصوبہ کے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کا اعلان کردیاگیا ، اور پھر شاہین باغ کے احتجاج کو کمزور کردیا گیا دہلی کے شاہین باغ کو بغیر نوٹس اور اطلاع کے توڑ دیا گیا۔ اس سے قبل بھی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، کے طلباء و طالبات پر پولس اور سنگھیوں کے ذریعے ظلم و تشدد کیا گیا۔ جمہوری انداز میں احتجاج کر رہے طلباء کو لاٹھیوں سے پیٹا گیا۔ یہ بات ایک شخص بھی سمجھ سکتا ہے اور ملک کے صاف ذہن رکھنے والے افراد بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اگر یہی احتجاج غیر مسلموں کے ذریعے جاری ہوتا تو حکومت اور پولس اتنی جرأت کبھی نہ دیکھاتی۔ بلکہ احتجاجوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جاتا۔
لیکن آزادی کے بعد سے مسلمانوں کو جو سیکولرزم کا نشہ پلا کر دیش بھکتی دیکھانے کا عادی بنایا گیا۔ یہ غلام ذہنیت ملی سیاسی قائدین کی دین ہے۔ جو اپنے مفادات کیلے قوم کا سودا کرتے آئے ہیں۔ ذرا ملک کے منظر نامے پر نظر ڈالیے کس طرح حکومت ظلم و جبر کر رہی ہے۔ کس طرح سے عدالت کا پلڑا انصاف کے پیمانے کو کچل کر غیر مسلموں کیلئے تمام قوانین اور آئین کو پھلانگ جاتا ہے۔ فرقہ پرست حکومت ملک میں کیسے یکطرفہ فیصلہ کر رہی ہے۔ قانون اور آئین اس فرقہ پرست حکومت کیلے کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔ یہ بات مسلمانوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مسلم نوجوانوں کو ماب لینچنک میں مار دیا جاتا ہے۔ باقاعدہ اسکی ویڈیوز بھی بنائی جاتی ہے لیکن کسی مجرم کو اس جرم کی سزا نہیں دی جاتی ہے۔ فرقہ پرست عناصر منظم طریقے سے قوم کے ایسے افراد کو نشانہ بنا رہے ہیں جو مسلمانوں کیلے کارآمد ہے جو مسلمانوں کے اصل مسائل کو اجاگر کرتے ہیں حکومت سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارتے ہیں۔ جو ملت کیلے کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ایسے نوجوانوں پر حملے کیے جارہے ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ جو قوم کو لیڈ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ قوم کے وہ افراد جو آگے چل کر مسلمانوں کی قیادت کرنے والے ہیں جو مسلمانوں کو پستی سے نکال کر بلندی کی طرف لے جانے والے ہیں۔ جو اپنے اندر خود ایک تحریک رکھتے ہیں۔ ایسے قابل با صلاحیت نوجوان طلباء و طالبات کو فرقہ پرست ظالم حکومت جیلوں میں بند کر رہی ہے۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں طلباء کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔یہ قوم کا وہ سرمایہ ہے جو مستقبل میں قوم کی رہنمائی قیادت کرنے والے ہوگے۔۔ لیکن ظالم حکومت اپنے ناجائز عزائم کی تکمیل کیلے نوجوانوں پر جھوٹے الزامات لگا کر جیلوں کی زینت بنارہی ہے۔
مسلمانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ہماری ملک سے محبت اور وفاداری کیلے جنگ آزادی میں ہمارے بزرگوں کی قربانیاں ہی کافی ہے۔ اگر ہم فرقہ پرستوں کے جھوٹ الزامات پر صفائی پیش کرنے اور دیش بھکتی دیکھانے میں ہی مصروف رہے تو اسکا مطلب ہے کہ ہم انکے جال میں پھس رہے ہیں۔ یہ جو دیش دروھی کے الزامات لگاتے ہیں۔ دراصل یہ ہمیں کمزور کرنے اور الجھانے کیلے ہیں۔ تاکہ ہم کبھی ملک میں مستحکم نہ ہوسکے ہیں ہم انصاف اور حق مانگنے کی جرات نہ کرسکے ۔ ہم اپنے اصل مسائل کو نظر انداز کرکے دیش بھکتی کے ثبوت پیش کرنے میں لگے رہے ہیں یہی ان فرقہ پرستوں کی چالیں ہے۔ جس کا شکار مسلمان آزادی سے ابتک ہوتے آرہے ہیں۔ اب آنکھیں کھولیے یہ سیکولرازم جمہوریت والا ملک نہیں رہا ہے اب یہاں فرقہ پرستوں کا راج ہے یہاں مسلمانوں دلتوں کیلے انصاف کے پیمانے الگ ہے اور برہمنوں سنگھیوں کیلے الگ ہے۔ اب اپنے مذہب، حقوق ،جان، مال عزت و آبرو کی بقاء کی جنگ ہمیں خود لڑنی ہوگی۔ کیونکہ ملک میں جو کچھ ہورہا ہے قانون میں تبدیلیاں اقلیتوں کے ساتھ ناانصافیوں، سرے عام مسلم نوجوانوں کی ماب لینچنک، خواتین بچیوں کی عصمت دری۔ تعلیم کے نام لوٹ کھسوٹ، عدالتوں انصاف کے نام پر دھندا ، مجرموں پر رحم ، ظالموں کا استقبال، زانیوں کی رہائی، دہشتگردوں کو باعزت بری کرنا۔ یہ سب ملک کے بوسیدہ سسٹم اور حکومت کی ناکامیوں کی پول کھولتا ہے۔ اسی لے اب اپنی مدد آپ کیجیے کوئی تمہاری مدد کیلے باہر سے نہیں آنے والا ۔
|
|